جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔(ﺍﻣﺮﺃﺓ ﻧﻮﺡ) ، (ﺍﻣﺮﺃﺓ ﻟﻮﻁ)
یہاں زوجۃ نہیں کہا کیونکہ ان کے درمیان اعتقادی اختلاف پایاجاتاہے۔ کیونکہ وہ انبیاء ہیں اور ان کی بیویاں غیرمومنات تھیں۔
اس طرح اللہ فرماتاہے (ﺍﻣﺮﺃﺓ ﻓﺮﻋﻮﻥ) کیونکہ فرعون کی بیوی(آسیہ رض) مومنہ تھی جبکہ فرعون کافر تھا۔
زوجۃ:
جب دونوں کے درمیان جسمانی تعلقات کےساتھ ساتھ فکری ونظریاتی تعلق اور دلی محبت ہو تب بیوی کےلیے زوجۃ کا لفظ استعمال ہواہے
ثانيا: (ﺍﻟﺰﻭﺟﺔ)
قرآن میں استعمال دیکھ لیں۔
اللہ فرماتاہے:(ﻭﻗﻠﻨﺎ ﻳﺎ ﺃﺩﻡ ﺍﺳﻜﻦ ﺃﻧﺖ ﻭﺯﻭﺟﻚ ﺍﻟﺠﻨﺔ)
(ﻳﺎ ﺃﻳﻬﺎ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﻗﻞ ﻷﺯﻭﺍﺟﻚ) ..
کیونکہ آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی۔۔۔۔محمدصلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ان کی بیویوں کے درمیان فکری،نظریاتی اور اعتقادی موافقت تھی۔
لیکن صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ امراۃ عام ہے اس کو بھی کہاجاتاہے جس سے جسمانی وفکری ہم آہنگی ہو اور اس کو بھی کہاجاتاہے جس سے جسمانی تعلق ہو اور فکری نہ ہو کیونکہ اللہ زکریا علیہ السلام کی بیوی مسلمان تھی تب بھی زکریاعلیہ السلام نےاپنی بیوی کو "امراۃ"فرمایاہے۔(ﻭﻛﺎﻧﺖ ﺍﻣﺮﺃﺗﻲ ﻋﺎﻗﺮﺍً)
(الصاحبة)
قرآن میں صاحبہ اس وقت استعمال ہوتاہے جب دونوں کے درمیان فکری اور جسمانی دونوں طرح کا انقطاع آجائے۔اسی وجہ سے قیامت کے اکثر مشاھدات کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے "امرۃ،زوجہ" سے ہٹ کر صاحبہ کا لفظ استعمال کیاگیاہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتاہے: (ﻳﻮﻡ ﻳﻔﺮ ﺍﻟﻤﺮﺀ ﻣﻦ ﺃﺧﻴﻪ ﻭﺃﻣﻪ وﺃﺑﻴﻪ ﻭﺻﺎﺣﺒﺘﻪ ﻭﺑﻨﻴﻪ۔
کیونکہ یہاں شوہر بیوی کےدرمیان جسمانی اور فکری تعلق کٹ گیاہے۔
اور تاکید کےلیے اللہ فرماتاہے:
(ﺃﻧﻰ ﻳﻜﻮﻥ ﻟﻪ ﻭﻟﺪ ﻭﻟﻢ ﺗﻜﻦ ﻟﻪ ﺻﺎﺣﺒﺔ) ..
زوجہ۔۔امراۃ دونوں کا ذکر نہیں کیاتاکہ کسی بھی قسم کا تعلق جسدی اور فکری کی نفی کی جائے
ConversionConversion EmoticonEmoticon