یہ سعودی دارالحکومت ریاض سے تعلق رکھنے والا ایک 32 سالہ نوجوان ہے۔ اس کی زندگی کیسے تباہ ہوئی؟ اپنی المناک داستان بیان کرتے ہوئے اس نوجوان کا کہنا ہے کہ میں ایک دن ریاض کے تجارتی مرکز میں واقع ایک ہوٹل میں بیٹھا چائے پی رہا تھا اور ساتھ ہی اخبار کے مطالعے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ اتنے میں میرے قریب سے ایک عورت گزری، جو مٹک مٹک کر نخرے والے انداز سے چل رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ رک گئی اور کافی دیر تک مجھ پر نظریں جمائے رکھی۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں، میں اپنے خاندان بھر میں انتہائی خوبصورت اور مضبوط جسامت کا مالک ہوں، جو مجھے دیکھتا ہے، دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔
اس لیے میں نے اس عورت کو نظر انداز کر دیا اور دوسری بات یہ بھی تھی کہ آج کل ریاض کے مشہور ریسٹورنٹس اور مصروف مقامات پر پولیس کا گشت بڑھ گیا تھا، وہ ذرا سی مشکوک حرکت کو فوراً نوٹ کرلیتے، اس لیے میں نے اس کی جانب ذرا سی بھی توجہ نہیں دی۔
تھوڑی دیر بعد وہ قریب ہی گفٹ شاپنگ سینٹر سے کچھ چیزیں خریدنے لگی، اتنے میں، میں چائے پی کر فارغ ہوا اور اس سینٹر سے باہر نکلنے ہی لگا تھا کہ اس عورت نے مڑ کر دیکھا، میں اس کے پاس سے گزر رہا تھا۔ اس نے مجھے اشارے سے اپنی طرف بلایا، میں تو لباس اس کا زیور اور دیگر جواہرات دیکھ کر حیران ہوگیا، شاید کوئی بہت ہی امیر کبیر خاندان کی عورت ہے، مجھے بغیر کسی تمہید کے کہنے لگی: اگر آپ برا نہ مانیں تو اپنا موبائل نمبر دے سکتے ہیں؟ میں نے بلاتامل اپنا نمبر دہرایا، جو اس نے اپنے موبائل میں محفوظ کر لیا۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ آخر اس عورت نے بغیر کسی شناسائی اور بغیر کسی مقصد کے میرا فون نمبر کیوں لے لیا ہے۔ دن بھر میں یہی سوچتا رہا۔
رات کے گیارہ بجے ہوں گے کہ ایک نامعلوم نمبر سے کال آئی، جب میں نے اسے ریسیو کیا تو وہی عورت تھی، جو دن کو شاپنگ سینٹر میں ملی تھی، بڑے میٹھے اور پیار بھرے انداز میں باتیں کرنے لگی اور کہنے لگی کہ:
”میرا تعلق ایک امیر خاندان سے ہے۔ خاوند سے نبھا نہ ہو سکا، اس نے مجھے طلاق دے دی ہے۔“
میں نے اس سے اس کی عمر پوچھی تو اس نے بتایا کہ 31 سال ہے، بظاہر وہ 20 سال کی نظر آرہی تھی۔ اس نے اپنا نام باعمہ بتایا۔ کافی دیر تک ہماری گفتگو کا سلسلہ جاری رہا، پھر اس نے اگلی رات فون کرنے کا کہہ کر سلسلہ منقطع کر دیا، میں دن بھر اس کے بارے میں سوچ سوچ کر بے چین بلکہ آسمان پر اڑتا ہوا خود کو محسوس کر رہا تھا اور اپنی قسمت پر نازاں تھا، کیونکہ میری عمر تو ابھی صرف 28 سال تھی، میں نے شادی بھی نہیں کی تھی۔
اگلی رات میں نے خود ہی اسے فون کر دیا، میں نے محسوس کیا، گویا وہ اسی انتظار میں تھی، آج کھل کے باتیں کرنے لگی، کافی دیر بعد وہ کہنے لگی کہ کل چھٹی کا دن ہے، آؤ ہم فلاں ہوٹل پر اکٹھے کھانا کھائیں گے، اندھا کیا مانگے دو آنکھیں، میں نے نہ صرف حامی بھرلی، بلکہ اس کے لیے انتہائی خوبصورت تحفہ خریدنے کا پروگرام بنانے لگا، میری تو اس وقت خوشی اور حیرانی کی انتہا نہ رہی، جب اگلے دن ملاقات پر اس نے بھی ایک قیمتی تحفہ پیش کر دیا اور یوں ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا۔
ایک دن اس کا اچانک مجھے فون آیا اور کہنے لگی کہ آپ سے ضروری کام ہے، کیا آپ فلاں ہوٹل میں مجھ سے مل سکتے ہیں؟ میں نے کہا میں سو بار حاضر ہوں اور ایک گھنٹے میں اس کے بتائے ہوئے ہوٹل میں پہنچ چکا تھا۔
وہاں کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد اس نے اپنے پرس سے مصر کے دارالحکومت قاہرہ کا ہوائی جہاز کا ٹکٹ جو میرے نام پر تھا، اس کے علاوہ تین دن قاہرہ کے مشہور فائیو اسٹار ہوٹل سمیر امیس میں قیام کیلئے میرے نام ریزرویشن کے علاوہ دس ہزار ریال کا کراسڈ چیک میرے حوالے کرتے ہوئے کہنے لگی کہ آپ کمپنی سے چھٹی لے کر کل قاہرہ چلے جائیں، آپ کی سمیرامیس ہوٹل میں تین دن کی بکنگ ہو چکی ہے۔
وہاں فلاں شخص سے اس فون نمبر پر رابطہ کرنا، جو آپ کو ایک مشہور کمپنی کے ہیڈ آفس لے جائے گا، وہاں سے میرے لیے نئے ماڈل کے کچھ نئے سوٹ خرید کر لے آئیں اور یہ میری طرف سے اتھارٹی لیٹر بھی ہے، مجھے امید ہے کہ یہ میرا کام دو گے۔
عرب نوجوان کا کہنا ہے کہ اس عورت کے قاہرہ جانے کے مطالبے پر میں بے ساختہ بول اٹھا کہ آپ کے لیے جان بھی حاضر ہے۔ اگلے دن میں نے کمپنی سے چھٹی لے لی، جو کہ بڑی مشکل سے ملی، میں پروگرام کے مطابق قاہرہ پہنچ گیا اور دیئے گئے نمبر پر جب رابطہ کیا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی، وہ کوئی اور نہیں، بلکہ یہی عورت تھی۔ میں تو ہکا بکا رہ گیا، اس پر وہ کہنے لگی کہ میں آپ کو سرپرائز دینا چاہتی تھی۔
اب آپ فلاں کمرہ نمبر میں آجائیں، میں چند منٹ میں اس کمرے میں پہنچ گیا، دیکھا تو وہاں یہی عورت میری دوست ناعمہ تھی جو واقعی انتہائی قیمتی اور عمدہ و اعلیٰ لباس میں ایک شہزادی نظر آرہی تھی، جسے دیکھ کر شیطان نہ صرف خوش بلکہ حیران ہوتا ہوگا اور کوئی بھی آدمی گناہ سے بمشکل بچ پاتا۔
وہاں وہ مجھ سے کھیلنے اور اٹھکیلیاں کرنے لگ گئی اور پھر ہم تمام حدود پار کر گئے، میں نے خدا اور اس کے رسول کے فرامین کو یکسر بھلا دیا۔ وہیں سے میں نے اپنی چھٹی میں اضافے کی درخواست کمپنی کو بھیج دی اور پھر دس دن ہم نے خوب مصر کے تمام قابل ذکر مقامات کی سیر کی اور دس دن تک ہم شیطان کو خوش کرتے رہے۔
دس دن بعد ہم ایک ہی فلائٹ سے ریاض واپس آگئے، یہ ہمارا ایک تاریخی اور تصوراتی سفر تھا، اس کے بعد تو ہمارے تعلقات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا، میرے ان تعلقات کا میرے بڑے بھائی کو علم ہوا، انہیں سن کر کافی دھچکہ لگا، انہوں نے مجھے بہت سمجھایا، مگر میں نے سوچا کہ ہر آدمی اپنے بارے میں دوسرے سے زیادہ بہتر فیصلہ کر سکتا ہے۔
اس دوران میرے والد بھی فوت ہوگئے، مگر مجھ پر کوئی خاص اثر نہ پڑا، ہم نے ان دو برسوں میں سعودی عرب کے تمام قابل ذکر مقامات کی اکٹھی سیر کرلی تھی۔ کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ ہمارا آپس میں کیا تعلق ہے۔
ایک دن میں اپنے بڑے بھائی کے ہمراہ کار میں کہیں جا رہا تھا کہ اچانک گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا، مجھے تو کوئی خاص چوٹ نہ آئی، مگر میرے بھائی شدید زخمی ہوگئے، ان کا کافی خون بہہ گیا تھا۔ انہیں فوراً قریبی اسپتال پہنچایا، ڈاکٹروں نے ان کے لیے خون مانگا، چونکہ میرا اور بھائی کے خون کا گروپ یکساں تھا، اس لیے میں اپنا خون دینے کے لیے تیار ہو گیا۔
ڈاکٹر نے میرا خون لینے سے پہلے معمولی مقدار ٹیسٹ کرنے کے لیے نکالی تاکہ چیک کیا جائے کہ مجھے کوئی بیماری تو نہیں، میں تو اپنی جگہ بڑا مطمئن تھا، کیونکہ تین سال قبل میرا مکمل میڈیکل چیک اپ کمپنی نے کرایا تھا، میں ہر بیماری سے محفوظ تھا اور میری صحت بھی قابل رشک تھی۔
تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر صاحب میرے خون کی ٹیسٹ رپورٹ لے کر میرے پاس آئے، ان کا چہرہ کچھ پریشان سا تھا، میں نے پوچھا کہ کیا میرے بھائی کی حالت خطرے سے تو باہر ہے نا۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے ابھی اس کا تو ہمیں پتہ نہیں، البتہ آپ کی حالت ضرور خطرے سے باہر نہیں، بلکہ خطرے کے اندر ہے، میں تو حیران رہ گیا اور پوچھا کہ کیا مطلب؟
ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ آپ کے خون میں ایڈز کے جراثیم سرایت کرچکے ہیں۔
یہ سن کر تو مجھ پر بجلی گر گئی، ہائے کاش میں اسی وقت مرجاتا۔ ہائے کاش زمین اسی وقت پھٹ جاتی اور میں اس میں دفن ہوجاتا اور میں بے ہوش ہو کر گر پڑا، جب کافی دیر بعد مجھے ہوش آیا تو میرا جسم تھرتھر کانپ رہا تھا کہ کیا میں واقعی اس بھیانک ترین مرض کا شکار ہو چکا ہوں، جس کا دنیا بھر میں کوئی علاج نہیں، اس کا مریض سسک سسک کر دم توڑ جاتا ہے، ایسے مریض کی اولاد، بیوی اور متعلقین کو بھی یہ مرض سرایت کر جاتا ہے۔ میں نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ یہ مرض کب سے اور کتنا شدید ہے۔
ڈاکٹر نے بتایا کہ یہ مرض آپ کو کسی دوسرے سے لگا ہے، آپ میں ازخود پیدا نہیں ہوا اور اس کا کوئی علاج نہیں۔ یہ آپ کی آخری سانس تک آپ کے ساتھ رہے گا۔“
اس واقعہ کے دو دن بعد اس کار حادثے کی وجہ سے میرے بھائی فوت ہو گئے۔ مجھے اس پر بہت دکھ ہوا، کیونکہ وہ صرف میرا بھائی ہی نہیں، بلکہ میرے دوست اور ہمدرد، خیر خواہ تھے۔ انہوں نے کئی بار مجھے اس عورت کی دوستی سے منع کیا تھا، مگر میں باز نہ آتا تھا، آج اس جرم کی سزا مجھے ساری زندگی بھگتنی پڑے گی۔
بھائی کی وفات کے دس دن بعد ناعمہ کا فون آیا، کہنے لگی میری جان تم کہاں ہو، کافی دن گزر گئے، ملاقات نہیں ہوئی، میں تو اس کی آواز ہی سن کر جل بھن اٹھا اور کہنے لگا کیا بھونکنا چاہتی ہو، وہ تو حیران رہ گئی، اسے میرے ایسے انداز تکلم کی قطعاً کوئی امید نہ تھی، پھر بھی کہنے لگی، آپ سے کب ملاقات ہو سکتی ہے؟
میں نے کہا اب زندگی بھر نہیں ہو سکے گی، وہ پوچھنے لگی کہ آخر کیا ہوا؟ میں نے اس کو صاف صاف بتا دیا کہ تجھ سے محبت تو بہت ہے، مگر تم میں سے ملاقات نہیں کر سکتا، کہنے لگی کیوں کیا ہوا، میں نے اسے سارا قصہ سنا ڈالا۔
وہ پوچھنے لگی کہ کیا آپ کی کسی اور لڑکی سے بھی دوستی ہے، میں نے کہا نہیں، صرف تم سے دوستی کی تھی، جس کی سزا اب موت تک بھگتنی پڑے گی، پھر اس نے پوچھا کہ کبھی تم نے کسی کا خون خود کو لگوایا ہے، میں نے بتایا کہ نہیں، بلکہ دوسروں کو میں نے کئی بار خون دیا ہے، مگر خود کبھی خون نہیں لگوایا۔
یہ سن کر وہ ہنستے ہوئے کہنے لگی، پھر تو میرا مقصد پورا ہو گیا، مجھے تو سخت طیش آگیا اور پوچھا کہ کونسا مقصد تمہارا پورا ہوا؟
وہ کہنے لگی کہ میں تو ان تمام نوجوان سے انتقام لینا چاہتی ہوں، جن کے سبب مجھے ایڈز لاحق ہوا، اب میں اس کا بدلہ دوسروں کو اس مرض میں مبتلا کر کے لینا چاہتی ہوں اور تم میرا پہلا شکار ہو۔
باقی کئی نوجوان اس وقت پراسس میں ہیں، انہیں بھی اس وقت پتہ چلے گا، جب ان کا بھی کام پورا ہو چکا ہوگا۔ اس کے بعد اس نے مجھے ایک بہت غلیظ سی گالی دی اور فون زور سے بند کر دیا۔
اس کے بعد سے میں ایک زندہ لاش جیسی زندگی گزار رہا ہوں، میری عمر 32 سال ہو چکی ہے، ابھی تک میں نے شادی نہیں کی، یہ مرض 29 سال کی عمر میں لگ گیا تھا، اس وقت اگر اس عورت سے واقفیت نہ ہوتی تو رشتے کی بات چل رہی تھی، جلد ہی شادی ہو جاتی، مگر اس عورت کے چکر میں پڑ کر اس لڑکی سے رشتہ کی بات ہی ختم کر دی تھی۔
اب میرے بھائی، بہنیں اور والدہ شادی پر پُرزور اصرار کر رہے ہیں، مگر میں یہ بیماری دوسروں میں منتقل نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی اپنی اولاد کو پہلے ہی دن سے ایڈز کا مریض دیکھنا چاہتا ہوں، میری کمپنی کے تمام دوست احباب بھی مجھے شادی پر مجبور کر رہے ہیں، مگر میں کسی کو بتا نہیں رہا کہ شادی نہ کرنے کی کیا وجہ ہے اور اب میرا وزن 68 کلو سے کم ہو کر صرف 55 کلو رہ گیا ہے، میرا چہرہ زرد پیلا اور جسم لاغر، ہاتھوں میں رعشہ اور چلتے وقت ٹانگیں کانپنے اور سانس پھولنے لگ جاتا ہے۔
اب مجھے پتہ نہیں کہ کب مروں گا، مگر چند ہی برسوں میں یعنی تین یا چار برسوں کے اندر اندر مر جاؤں گا، اب میں حق تعالیٰ سے معافی مانگ کر توبہ کر چکا ہوں، نماز پانچ وقت باجماعت پڑھنا شروع کر دی ہے، بلکہ قرآن حفظ کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ کس شام میری زندگی کا چراغ گُل ہو جائے اور میرا مقدر قبر کی تاریکی بن جائے۔
اس لیے تمام مسلمانوں اور دنیا بھر کے انسانوں تک اپنا آخری پیغام اس تحریر کی صورت میں پہنچانا چاہتا ہوں، خدا کے لیے اپنی جان پر رحم کریں اور غلط کام کر کے خود کو زندہ درگور نہ کریں۔
ConversionConversion EmoticonEmoticon