قرآن مجید
میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے رمضان المبارک اور اس کے ساتھ روزے کا ذکر فرمایا ہے
اور یہ بات بتائی ہے کہ تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں اور بھوکا پیاسا رہنا تمہارے
لیے عبادت قرار دیا گیا ہے۔ پھر یہ بتایا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے
بھی امتوں پر روزے فرض کیے گئے تھے۔ اور جب سے یہ مذہب اور انسان چلے آرہے ہیں
نماز، روزہ اور دیگر عبادات بھی چلی آرہی ہیں۔ یعنی تم سے پہلے لوگ بھی روزے رکھتے
تھے اور ان پر بھی روزے ایسے ہی فرض تھے جیسے تم پر فرض کیے گئے ہیں۔ البتہ روزے
کا جو طریقہ و نظم پہلی امتوں میں تھا اسلام نے اس میں کچھ اصلاحات اور تبدیلیاں
کیں۔ میں اس وقت دو بڑی تبدیلیوں کا ذکر کروں گا۔قرآنِ
حکیم میں روزہ کی فرضیت کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا :
يأَيُّهاَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ کَمَا
کُتِبَ عَلَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo
البقرة،
2 : 183
’’اے
ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے
گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤo‘‘
1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ کی فضیلت بیان
کرتے ہوئے فرمایا۔
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِ يْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَ لَه. مَا
تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِه.
بخاری،
الصحيح، کتاب الصوم، باب صوم رمضان احتسابا من اليمان، 1 : 22، رقم : 38
’’جس
نے بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے
جاتے ہیں۔‘‘
2۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اَلصَّوْمُ
جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ کَجُنَّةِ أَحَدِکُمْ مِنَ الْقِتَالِ.
نسائی،
السنن، کتاب الصيام، 2 : 637، رقم : 2230، 2231
’’روزہ
جہنم کی آگ سے ڈھال ہے جیسے تم میں سے کسی شخص کے پاس لڑائی کی ڈھال ہو۔‘‘
3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ
أَمْثَالِها إِلَی سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ إِلَی مَا شَائَ اﷲُ، يَقُوْلُ اﷲُ
تَعَالَی : إِلَّا الصَّوْمُ فَإِنَّهُ لِی، وَأَنَا أَجْزِی بِهِ.
ابن
ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء فی فضل الصيام، 2 : 305، رقم : 1638
’’آدم
کے بیٹے کا نیک عمل دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک آگے جتنا اﷲ چاہے بڑھایا جاتا
ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے : روزہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ میرے لئے ہے
اور میں ہی اس کی جزا دوں گ۔‘‘
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے
یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ اعمال صالحہ کا ثواب صدقِ نیت اور اخلاص کی وجہ سے دس گنا
سے بڑھ کر سات سو گنا تک بلکہ بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے لیکن روزہ کا ثواب
بے حد اور بے اندازہ ہے۔ یہ کسی ناپ تول اور حساب کتاب کا محتاج نہیں، اس کی مقدار
اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانت۔ روزے کی اس قدر فضیلت کے درج ذیل اسباب ہیں :
پہلا سبب : روزہ لوگوں
سے پوشیدہ ہوتا ہے اسے اﷲ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا جبکہ دوسری عبادتوں کا یہ حال
نہیں ہے کیونکہ ان کا حال لوگوں کو معلوم ہو سکتا ہے۔ اس لحاظ سے روزہ خالص اﷲ
تعالیٰ کے لئے ہی ہے۔ فانّا لِيْ سے اسی کی طرف اشارہ ہے۔
دوسرا سبب : روزے میں
نفس کشی، مشقت اور جسم کو صبر و برداشت کی بھٹی سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس میں بھوک،
پیاس اور دیگر خواہشاتِ نفسانی پر صبر کرنا پڑتا ہے جبکہ دوسری عبادتوں میں اس قدر
مشقت اور نفس کشی نہیں ہے۔
تیسرا سبب : روزہ میں
ریاکاری کا عمل دخل نہیں ہوتا جبکہ دوسری ظاہری عبادات مثلاً نماز، حج، زکوٰۃ
وغیرہ میں ریاکاری کا شائبہ ہو سکتا ہے۔
چوتھا سبب : کھانے
پینے سے استغناء اﷲ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے۔ روزہ دار اگرچہ اﷲ تعالیٰ کی اس صفت
سے متشابہ تو نہیں ہو سکتا لیکن وہ ایک لحاظ سے اپنے اندر یہ خلق پیدا کر کے مقرب
الٰہی بن جاتا ہے۔
پانچواں سبب : روزہ کے
ثواب کا علم اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں جبکہ باقی عبادات کے ثواب کو رب تعالیٰ
نے مخلوق پر ظاہر کر دیا ہے۔
چھٹا سبب : روزہ ایسی
عبادت ہے جسے اﷲ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا حتی کہ فرشتے بھی معلوم نہیں کر سکتے۔
ساتواں سبب : روزہ کی
اضافت اﷲ ل کی طرف شرف اور عظمت کے لئے ہے جیسا کہ بیت اﷲ کی اضافت محض تعظیم و
شرف کے باعث ہے ورنہ سارے گھر اﷲ کے ہیں۔
آٹھواں سبب : روزہ دار
اپنے اندر ملائکہ کی صفات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اس لئے وہ اﷲ کو محبوب ہے۔
نواں سبب : جزائِ صبر
کی کوئی حد نہیں ہے اس لئے رمضان کے روزوں کی جزاء کو بے حد قرار دیتے ہوئے اﷲ
تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف منسوب کیا کہ اس کی جزاء میں ہوں۔
اَلآیَاتُ الْقُرْآنِیَّةُ
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ
فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰی وَالْفُرْقَانِج فَمَنْ شَهِدَ مِنْکُمُ
الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُط وَ مَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ
اَیَّامٍ اُخَرَط یُرِیْدُ ﷲ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ
وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُکَبِّرُوا ﷲ عَلٰی مَا هَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ
تَشْکُرُوْنَo
(البقرة، 2: 185)
’’رمضان
کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اُتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس
میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں،
پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پالے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی
بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے، ﷲ تمہارے حق
میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے دشواری نہیں چاہتا، اور اس لیے کہ تم گنتی پوری
کر سکو اور اس لیے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو
اور اس لیے کہ تم شکر گزار بن جاؤ۔‘‘
اَلأَحَادِیْثُ النَّبَوِیَّةُ
1. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی
الله عنه یَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: إِذَا دَخَلَ
شَهْرُ رَمَضَانَ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ
جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّیَاطِیْنُ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب هل یقال رمضان أو شهر
رمضان ومن رأی کله واسعا، 2/672، الرقم: 1800، ومسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب
فضل شهر رمضان، 2/758، الرقم: 1079، والنسائي في السنن، کتاب الصیام، باب فضل شهر
رمضان، 4/126، الرقم: 2097.
’’حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا: جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے
دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی
الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: إِذَا جَائَ
رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ
وَصُفِّدَتْ الشَّیَاطِیْنُ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ
وَالنَّسَائِيُّ.
أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب فضل شهر رمضان، 2: 758،
الرقم: 1079، والنسائي في السنن، کتاب الصیام، باب فضل شهر رمضان، 4/127، الرقم:
2100، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/357، الرقم: 8669، والبیهقي في السنن الکبری،
4/202، الرقم: 7695.
’’حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا: جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے
بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم اور نسائی
نے روایت کیا ہے۔
3. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی
الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: إِذَا کَانَ أَوَّلُ
لَیْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ، صُفِّدَتِ الشَّیَاطِیْنُ، وَمَرَدَةُ الْجِنِّ،
وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ، فَلَمْ یُفْتَحْ مِنْهَا بَابٌ، وَفُتِّحَتْ
أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، فَلَمْ یُغْلَقْ مِنْهَا بَابٌ، وَیُنَادِي مُنَادٍ: یَا
بَاغِيَ الْخَیْرِ، أَقْبِلْ، وَیَا بَاغِيَ الشَّرِّ، أَقْصِرْ، وَ ِﷲِ
عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ، وَذٰلِکَ کُلَّ لَیْلَةٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ
مَاجَه.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في فضل شهر رمضان،
3/66، الرقم: 682، وابن ماجه في السنن، کتاب الصیام، باب ما جاء في فضل شهر رمضان،
1/526، الرقم: 1642، وابن حبان في الصحیح، 8/221، الرقم: 3435.
’’حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا: جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے شیطانوں اور سرکش جنوں کو بیڑیاں پہنا
دی جاتی ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ
کھولا نہیں جاتا، اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں پس ان میں سے کوئی دروازہ
بند نہیں کیا جاتا۔ ایک ندا دینے والا پکارتا ہے: اے طالب خیر! آگے آ، اے شر کے
متلاشی! رک جا، اور اللہ تعالیٰ کئی لوگوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے۔ ماہ رمضان
کی ہر رات یونہی ہوتا رہتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن
ماجہ نے روایت کیا ہے۔
4. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی
الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: أَتَاکُمْ رَمَضَانُ
شَهْرٌ مُبَارَکٌ فَرَضَ ﷲ عَلَیْکُمْ صِیَامَهُ تُفْتَحُ فِیْهِ أَبْوَابُ
السَّمَاءِ وَتُغْلَقُ فِیْهِ أَبْوَابُ الْجَحِیْمِ وَتُغَلُّ فِیْهِ مَرَدَةُ
الشَّیَاطِیْنِ ِﷲِ فِیْهِ لَیْلَةٌ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ مَنْ حُرِمَ
خَیْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ أَبِي شَیْبَةَ.
أخرجه النسائي في السنن، کتاب الصیام، باب ذکر الاختلاف علی معمر
فیه، 4/142، الرقم: 2106، وفي السنن الکبری، 2/66، الرقم: 2416، وابن أبي شیبة في
المصنف، 2/270، الرقم: 8867، ، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2/60، الرقم: 1492،
والهیثمي في مجمع الزوائد، 3/143.
’’حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا: تمہارے پاس ماہ رمضان آیا۔ یہ مبارک مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے
روزے فرض کیے ہیں۔ اس میں آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے
دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور بڑے شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں۔ اس (مہینہ) میں ﷲ
تعالیٰ کی ایک ایسی رات (بھی) ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو اس کے ثواب سے
محروم ہوگیا سو وہ محروم ہو گیا۔‘‘
اِس حدیث کو امام نسائی اور
ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
5. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه
قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم یَقُوْلُ: هَذَا رَمَضَانُ
قَدْ جَاءَ تُفْتَحُ فِیْهِ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَتُغْلَقُ أَبْوَابُ النَّارِ
وَتُغَلُّ فِیْهِ الشَّیَاطِیْنُ. بُعْدًا لِمَنْ أَدْرَکَ رَمَضَانَ فَلَمْ
یُغْفَرْ لَهُ إِذَا لَمْ یُغْفَرْلَهُ فِیْهِ فَمَتَی؟
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَةَ
وَالطَّبَرَانِيُّ.
أخرجه ابن أبي شیبة في المصنف، 2/270، الرقم: 8871، والطبراني في
المعجم الأوسط، 7/323، الرقم: 7627، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2/60، الرقم:
1492.
’’حضرت
انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اُنہوں نے بیان کیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: رمضان المبارک کا مقدس مہینہ آگیا ہے۔ اس میں جنت
کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ اس میں
شیاطین کو (زنجیروںمیں) جکڑ دیا جاتا ہے۔ وہ شخص بڑا ہی بد نصیب ہے جس نے رمضان کا
مہینہ پایا لیکن اس کی بخشش نہ ہوئی۔ اگر اس کی اس (مغفرت کے) مہینہ میں بھی بخشش
نہ ہوئی تو (پھر) کب ہو گی؟‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ
اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
6. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ
أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم کَانَ یَقُوْلُ: اَلصَّلَوَاتُ
الْخَمْسُ وَالْجُمْعَةُ إِلَی الْجُمُعَةِ وَرَمَضَانُ إِلَی رَمَضَانَ
مُکَفِّرَاتٌ مَا بَیْنَهُنَّ إِذَا اجْتَنَبَ الْکَبَائِرَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ
وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الطهارة، باب الصلوات الخمس والجمعة إلی
الجمعة ورمضان إلی رمضان مکفرات لما بینهن ما اجتنبت الکبائر، 1/209، الرقم: 233،
والترمذي في السنن، أبواب الصلاة، باب ما جاء في فضل الصلوات الخمس، 1/418،
الرقم: 214، وابن ماجه عن أبي أیوب الأنصاري في السنن، کتاب الطهارة وسننها،
باب تحت کل شعرة جنابة، 1/196، الرقم: 598، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/359، 414،
484، الرقم: 8700، 9345، 10290، وأبو یعلی في المسند، 11/371، الرقم: 6486، وابن
حبان في الصحیح، 5/24، الرقم: 1733.
’’حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا: پانچ نمازیں اور ایک جمعہ سے لے کر دوسرا جمعہ پڑھنا اور ایک رمضان سے
دوسرے رمضان کے روزے رکھنا، ان کے درمیان واقع ہونے والے گناہوں کے لیے کفارہ بن
جاتے ہیں، جب تک کہ انسان گناہ کبیرہ نہ کرے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ترمذی
اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
7. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی
الله عنه یَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ: أَظَلَّکُمْ شَهْرُکُمْ هَذَا بِمَحْلُوْفِ
رَسُوْلِ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم مَا مَرَّ بِالْمُسْلِمِیْنَ شَهْرٌ خَیْرٌ
لَهُمْ مِنْهُ وَلَا مَرَّ بِالْمُنَافِقِیْنَ شَهْرٌ شَرٌّ لَهُمْ مِنْهُ
بِمَحْلُوْفِ رَسُوْلِ ﷲِ لَیَکْتُبُ أَجْرَهُ وَنَوَافِلَهُ قَبْلَ أَنَّ
یُدْخِلَهُ وَیَکْتُبُ إِصْرَهُ وَشَقَائَهُ قَبْلَ أَنَّ یُدْخِلَهُ وَذَلِکَ
أَنَّ الْمُؤْمِنَ یُعِدُّ فِیْهِ الْقُوَّةِ مِنَ النَّفَقَةِ لِلْعِبَادَةِ
وَیُعِدُّ فِیْهِ الْمُنَافِقُ اتِّبَاعَ غَفَلاَتِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَاتِّبَاعَ
عَوْرَاتِهِمْ. رَوَاهُ ابْنُ خُزَیْمَةَ وَأَحْمَدُ وَالْبَیْهَقِيُّ.
أخرجه ابن خزیمة في الصحیح، 3/188، الرقم: 1884، وأحمد بن حنبل في
المسند، 2/374، الرقم: 8857، والبیهقي في شعب الإیمان، 3/304، الرقم: 3607،
والطبراني في المعجم الأوسط، 9/21، الرقم: 9008، والمنذري في الترغیب والترهیب،
2/58، الرقم: 1485.
’’حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حلفاً
فرمایا: تم پر ایسا مہینہ سایہ فگن ہوگیا ہے کہ مسلمانوں پر اِس سے بہترمہینہ اور
منافقین پر اس سے بڑھ کر برا مہینہ کبھی نہیں آیا۔ پھر دوبارہ رسول ﷲ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے حلفاً ارشاد فرمایا: ﷲ تعالیٰ اس مہینے کاثواب اور اس کی نفلی
عبادت اس کے آنے سے پہلے لکھ دیتا ہے اور اس کی بدبختی اور گناہ بھی اس کے آنے سے
پہلے لکھ دیتا ہے، کیونکہ مومن اس میں انفاق کے ذریعے قوت حاصل کر کے عبادت کرنے
کو تیاری کرتا ہے اور منافق مومنوں کی غفلتوں اور ان کے عیب تلاش کرنے کی تیاری
کرتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ،
احمد اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
8. عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ
رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: احْضُرُوْا
الْمِنْبَرَ فَحَضَرْنَا. فَلَمَّا ارْتَقَی دَرَجَةَ قَالَ: آمِیْنَ فَلَمَّا
ارْتَقَی الدَّرْجَةَ الثَّانِیَةَ، قَالَ: آمِیْنَ فَلَمَّا ارْتَقَی الدَّرْجَةَ
الثَّالِثةَ قَالَ: آمِیْنَ فَلَمَّا نَزَلَ، قُلْنَا: یَا رَسُوْلَ ﷲِ، سَمِعْنَا
مِنْکَ الْیَوْمَ شَیْئًا مَا کُنَّا نَسْمَعُهُ، قَالَ: إِنَّ جِبْرِیْلَ عَرَضَ
لِي فَقَالَ: بُعْدًا لِمَنْ أَدْرَکَ رَمَضَانَ فَلَمْ یُغْفَرْ لَهُ قُلْتُ
آمِیْنَ. فَلَمَّا رَقِیْتُ الثَّانِیَّةَ قَالَ: بُعْدًا لِمَنْ ذُکِرْتَ
عِنْدَهُ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْکَ، قُلْتُ: آمِیْنَ، فَلَمَّا رَقِیْتُ
الثَّالِثَةَ، قَالَ: بُعْدًا لِمَنْ أَدْرَکَ أَبَوَاهُ الْکِبَرَ عِنْدَهُ أَوْ
أَحَدُهُمَا فَلَمْ یُدْخِلاَهُ الْجَنَّةَ. قُلْتُ: آمِیْنَ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ
حِبَّانَ وَابْنُ خُزَیْمَةَ وَالْبَیْهَقِيُّ وَابْنُ أَبِي شَیْبَةَ. وَقَالَ
الْحَاکِمُ: صَحِیْحُ الإِسْنَادِ.
أخرجه الحاکم في المستدرک، 4/170، الرقم: 7256، وابن حبان في الصحیح،
2/140، الرقم: 409، وابن خزیمة في الصحیح، 3/192، الرقم: 1888، والبیهقی في السنن
الکبری، 4/304، الرقم: 8287، وابن أبي شیبة في المصنف، 2/270، الرقم: 8871،
والطبراني في المعجم الأوسط، 9/17، الرقم: 8994، والمعجم الکبیر، 19/144، الرقم:
315، وأبو یعلی في المسند، 10/308، الرقم: 5922، والبزار في المسند، 4/241،
الرقم: 1405، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2/330، الرقم: 2591.
’’حضرت
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا: منبر کے پاس آجاؤ، ہم آ گئے۔ جب ایک درجہ چڑھے تو فرمایا: ’’آمین‘‘ جب
دوسرا چڑھے تو فرمایا: ’’آمین‘‘ اور جب تیسرا چڑھے تو فرمایا: ’’آمین‘‘۔ جب اترے
تو ہم نے عرض کیا: یا رسول ﷲ! ہم نے آج آپ سے ایک ایسی چیز سنی ہے جو پہلے نہیں
سنا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل ں میرے پاس آئے اور
کہاجسے رمضان ملا لیکن اسے بخشا نہ گیا وہ بدقسمت ہوگیا۔ میں نے کہا: آمین۔ جب میں
دوسرے درجے پر چڑھا تو انہوں نے کہا: جس کے سامنے آپ کا نام لیا گیا اور اس نے
درود نہ بھیجا وہ بھی بد قسمت ہوگیا۔ میں نے کہا: آمین جب میں تیسرے درجے پر چڑھا
تو انہوں نے کہا: جس شخص کی زندگی میں اس کے ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک بوڑھا
ہوگیا اور انہوں نے اسے (خدمت و اِطاعت کے باعث) جنت میں داخل نہ کیا، وہ بھی
بدقسمت ہوگیا۔ میں نے کہا: آمین۔‘‘
اسے امام حاکم، ابن حبان، ابن
خزیمہ، بیہقی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث
صحیح الاسناد ہے۔
9. عَنْ أَبِي مَسْعُوْدٍ
الْغِفَارِيِّ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم
ذَاتَ یَوْمٍ وَأَهَلَّ رَمَضَانُ فَقَالَ: لَوْ یَعْلَمُ الْعِبَادُ مَا
رَمَضَانُ لَتَمَنَّتْ أُمَّتِي أَنْ یَکُوْنَ السَّنَةَ کُلَّهَا. رَوَاهُ
الْبَیْهَقِيُّ وَابْنُ خُزَیْمَةَ.
أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 3/313، الرقم: 3634، وابن خزیمة في
الصحیح، 3/190، الرقم: 1886، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2/62، الرقم: 1495.
’’حضرت
ابو مسعود غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رمضان کا مہینہ شروع ہوچکا تھا کہ
ایک دن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اگر لوگوں
کو رمضان کی رحمتوں اور برکتوں کا پتہ ہوتا تو وہ خواہش کرتے کہ پورا سال رمضان ہی
ہو۔‘‘
اِس حدیث کو امام بیہقی اور
ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔
10. عَنْ سَلْمَانَ رضی الله
عنه قَالَ: خَطَبَنَا رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فِي آخِرِ یَومٍ مِنْ
شَعْبَانَ فَقَالَ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ، قَدْ أَظَلَّکُمْ شَهْرٌ عَظِیْمٌ
شَهْرٌ مُبَارَکٌ شَهْرٌ فِیْهِ لَیْلَةٌ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ جَعَلَ ﷲ
صِیَامَهُ فَرِیْضَةً وَقِیَامَ لَیْلِهِ تَطَوُّعَا. مَنْ تَقَرَّبَ فِیْهِ
بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَیْرِ کَانَ کَمَنْ أَدَّی فَرِیْضَةً فِیْمَا سِوَاهُ
وَمَنْ أَدَّی فِیْهِ فَرِیْضَةً کَانَ کَمَنْ أَدَّی سَبْعِیْنَ فَرِیْضَةً
فِیْمَا سِوَاهُ وَهُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ. وَالصَّبْرُ ثَوَابُهُ الْجَنَّةُ،
وَشَهْرُ الْمُوَاسَاةِ وَشَهْرٌ یَزَدَادُ فِیْهِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ. مَنْ
فَطَّرَ فِیْهِ صَائِمًا کَانَ مَغْفِرَةً لِذُنُوْبِهِ وَعِتْقَ رَقَبَتِهِ مِنَ
النَّارِ وَکَانَ لَهُ مِثْلَ أَجْرِهِ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْقُصَ مِنْ
أَجْرِهِ شَيْئٌ قَالُوْا: لَیْسَ کُلُّنَا نَجِدُ مَا یُفَطِّرُ الصَّائِمَ.
فَقَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: یُعْطِي ﷲ هَذَا الثَّوَابَ مَنْ
فَطَّرَ صَائِمًا عَلَی تَمْرَةٍ أَوْ شَرْبَةِ مَاءِ أَوْ مَذْقَةِ لَبَنٍ
وَهُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ وَ أَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ وَآخِرُهُ عِتْقٌ
مِنَ النَّارِ. مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوْکِهِ غَفَرَ ﷲ لَهُ وَأَعْتَقَهُ مِنَ
النَّارِ وَاسْتَکْثِرُوْا فِیْهِ مِنْ أَرْبَعِ خِصَالٍ خَصْلَتَیْنِ تُرْضَوْنَ
بِهِمَا رَبَّکُمْ وَخَصْلَتَیْنِ لَا غِنَی بِکُمْ عَنْهُمَا. فَأَمَّا
الْخَصْلَتَانِ اللَّتَانِ تُرْضَوْنَ بِهِمَا رَبَّکُمْ فَشَهَادَةُ أَنْ لَا
إِلَهَ إِلَّا ﷲ وَتَسْتَغْفِرُوْنَهُ وَأَمَّا اللَّتَانِ لَا غِنَی بِکُمْ
عَنْهُمَا فَتَسْأَلُوْنَ ﷲ الْجَنَّةَ. وَتَعُوْذُوْنَ بِهِ مِنَ النَّارِ
وَمَنْ أَشْبَعَ فِیْهِ صَائِماً سَقَاهُ ﷲ مِنْ حَوْضِي شَرْبَةً لاَ یَظْمَأُ
حَتَّی یَدْخُلَ الْجَنَّةَ.
رَوَاهُ ابْنُ خُزَیْمَةَ
وَالْبَیْهَقِيُّ.
أخرجه ابن خزیمه في الصحیح، 3/191، الرقم: 1887، والبیهقي في شعب
الإیمان، 3/305، الرقم: 3609، والمنذري فيالترغیب والترهیب، 2/58، الرقم: 1483،
والحارث في المسند، 1/412، الرقم: 312.
’’حضرت
سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان
کے آخری دن ہمیں خطاب کیا اور فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک عظیم الشان اور بابرکت
مہینہ سایہ فگن ہو گیا ہے۔ اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ اللہ
تعالیٰ نے اس کے روزوں کو فرض کیا ہے اور راتوں کے قیام کو نفل۔ جو شخص اس میں قرب
الٰہی کی نیت سے کوئی نیکی کرتا ہے اسے دیگر مہینوں میں ایک فرض ادا کرنے کے برابر
سمجھا جاتا ہے اور جو شخص اس میں ایک فرض ادا کرتا ہے گویا اس نے باقی مہینوں میں
ستر فرائض ادا کیے۔ یہ صبر کا مہینہ اور صبر کا ثواب جنت ہی ہے۔ یہ غم خواری کا
مہینہ ہے، اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کی
افطاری کراتا ہے اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور اسے دوزخ سے آزاد کر دیا جاتا ہے۔
نیز اسے اس (روزہ دار) کے برابر ثواب ملتا ہے۔ اس سے اس کے ثواب میں کوئی کمی واقع
نہیں ہوتی۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک روزہ افطار کرانے کی
طاقت نہیں رکھتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ ثواب اللہ
تعالیٰ ایک کھجور کھلانے یا پانی پلانے یا دودھ کا ایک گھونٹ پلا کر افطاری کرانے
والے کو بھی دے دیتا ہے۔ اس مہینے کا ابتدائی حصہ رحمت ہے۔ درمیانہ حصہ مغفرت ہے
اور آخری حصہ دوزخ سے آزادی ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے ملازم پر تخفیف کرتا ہے
اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے اور اسے دوزخ سے آزاد کر دیتا ہے۔ اس میں چار کام
زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کرو۔ دو کاموں کے ذریعے تم اپنے رب کو راضی کروگے اور
دو کاموں کے بغیر تمہارے لیے کوئی چارہ کار نہیں۔ جن دو کاموں کے ذریعے تم اپنے رب
کو راضی کروگے ان میں سے ایک لا الہ الا اللہ کی گواہی دینا ہے اور دوسرا اس سے
بخشش طلب کرنا ہے۔ جن دو کاموں کے بغیر تمہارے لیے کوئی چارہ نہیں ان میں سے ایک
یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو اور دوسرا یہ ہے کہ دوزخ سے پناہ
مانگو۔ جو شخص روزہ دار کو پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ اسے میرے حوض سے پانی پلائے
گا۔ اسے جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابن خزیمہ
اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
11. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ
ﷲِ رضي ﷲ عنهما: أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: أُعْطِیَتْ
أُمَّتِي فِي شَهْرِ رَمَضَانَ خَمْسًا لَمْ یُعْطَهُنَّ نَبِيٌّ قَبْلِي: أَمَّا
وَاحِدَةٌ فَإِنَّهٗ إِذَا کَانَ أَوَّلُ لَیْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ نَظَرَ ﷲ
ل إِلَیْهِمْ وَمَنْ نَظَرَ ﷲ إِلَیْهِ لَمْ یُعَذِّبْهٗ أَبَدًا. وَأَمَّا
الثَّانِیَةُ فَإِنَّ خُلُوْفَ أَفْوَاهِهِمْ حِیْنَ یُمْسُوْنَ أَطْیَبُ عِنْدَ
ﷲِ مِنْ رِیْحِ الْمِسْکِ. وَأَمَّا الثَّالِثَةُ فَإِنَّ الْمَـلَائِکَةَ تَسْتَغْفِرُ لَهُمْ فِي کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَةٍ.
وَأَمَّا الرَّابِعَةُ فَإِنَّ ﷲ ل یَأْمُرُ جَنَّتَهٗ فَیَقُوْلُ لَهَا:
اسْتَعِدِّيْ وَتَزَیَّنِيْ لِعِبَادِيْ أَوْشَکُوْا أَنْ یَسْتَرِیْحُوْا مِنْ
تَعَبِ الدُّنْیَا إِلٰی دَارِي وَکَرَامَتِي. وَأَمَّا الْخَامِسَةُ فَإِنَّهٗ
إِذَا کَانَ آخِرُ لَیْلَةٍ غُفِرَ لَهُمْ جَمِیْعًا. فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ
الْقَوْمِ: أَهِيَ لَیْلَةُ الْقَدْرِ؟ فَقَالَ: لَا، أَلَمْ تَرَ إِلَی
الْعُمَّالِ یَعْمَلُوْنَ فَإِذَا فَرَغُوْا مِنْ أَعْمَالِهِمْ وُفُّوْا
أُجُوْرَهُمْ؟ رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ.
أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 3/303، الرقم: 3603، وفي فضائل الأوقات،
1/145، الرقم: 36، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2/56، الرقم: 1477.
’’حضرت
جابر بن عبد ﷲ رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا: میری اُمت کو ماہ رمضان میں پانچ تحفے ملے ہیں جو اس سے پہلے کسی نبی کو
نہیں ملے۔ پہلا یہ ہے کہ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو ﷲ تعالیٰ ان کی طرف نظرِ
التفات فرماتا ہے اور جس پر اُس کی نظرِ رحمت پڑجائے اسے کبھی عذاب نہیں دے گا۔
دوسرا یہ ہے کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو ﷲ تعالیٰ کو کستوری کی خوشبو سے بھی
زیادہ اچھی لگتی ہے۔ تیسرا یہ ہے کہ فرشتے ہر دن اور ہر رات ان کے لیے بخشش کی دعا
کرتے رہتے ہیں۔ چوتھا یہ ہے کہ ﷲ ل اپنی جنت کو حکم دیتاہے کہ میرے بندوں کے لیے
تیاری کرلے اور مزین ہو جا، تاکہ وہ دنیا کی تھکاوٹ سے میرے گھر اور میرے دارِ
رحمت میں پہنچ کر آرام حاصل کریں۔ پانچواں یہ ہے کہ جب (رمضان کی) آخری رات ہوتی
ہے ان سب کو بخش دیا جاتا ہے۔ ایک صحابی نے عرض کیا: کیا یہ شبِ قدر ہے؟ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ جب مزدور اپنے کام
سے فارغ ہو جاتے ہیں تو انہیں پوری پوری مزدوری دی جاتی ہے؟‘‘ اِس حدیث کو امام
بیہقی نے روایت کیا ہے۔
12. عَنْ عُمَرَ بْنِ
الْخَطَّابِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم ذَاکِرُ ﷲِ فِي
رَمَضَانَ مَغْفُوْرٌ لَهُ، وَسَائِلُ ﷲِ فِیْهِ لَا یَخِیْبُ. رَوَاهُ
الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ.
12: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6/195، الرقم: 6170، 7/226،
الرقم: 7341، والبیهقي في شعب الإیمان، 3/311، الرقم: 3627، والدیلمي في مسند
الفردوس، 2/242، الرقم: 3141، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2/64، الرقم: 1501،
والهیثمي في مجمع الزوائد، 2/64.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ماہِ رمضان میں ﷲ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا بخش دیا
جاتا ہے اور اس ماہ میں ﷲ تعالیٰ سے مانگنے والے کو نامراد نہیں کیا جاتا۔‘‘ اس
حدیث کو امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
اَلآثَارُ وَالْأَقْوَالُ
1. عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ أَبِي قَیْسٍ یَقُوْلُ: قَالَتْ عَائِشَةُ
رضي ﷲ عنها: لَا تَدَعْ قِیَامَ اللَّیْلِ فَإِنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله
وسلم کَانَ لَا یَدَعُهٗ، وَکَانَ إِذَا مَرِضَ أَوْ کَسِلَ صَلّٰی قَاعِدًا.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ.
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب قیام اللیل، 2/32،
الرقم: 1307، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/249، الرقم: 26157، والحاکم في
المستدرک، 1/452، الرقم: 1158، والبیهقي في السنن الکبری، 3/14، الرقم: 4498،
والطیالسي في المسند، 1/214، الرقم: 1519، وابن خزیمة في الصحیح، 2/177، الرقم:
1137، والبخاري في الأدب المفرد، 1/279، الرقم: 800.
’’حضرت
عبد اللہ بن ابی قیس کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا نے مجھے نصیحت کی کہ
قیام اللیل نہ چھوڑنا، کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے نہیں
چھوڑا کرتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیمار ہو جاتے یا کمزور ہو جاتے تو
(نماز)بیٹھ کر پڑھ لیتے۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود اور
احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔
2. قَالَ أَبُوْ بَکْرِ بْنُ
حَفْصٍ رَحِمَهٗ ﷲ: ذُکِرَ لِيْ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ کَانَ یَصُوْمُ الصَّیْفَ
وَیُفْطِرُ الشِّتَاءَ.
أخرجه أحمد بن حنبل في الزهد/167.
’’حضرت
ابو بکر بن حفص رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے بتایا گیا کہ حضرت ابوبکر
گرمیوں میں روزے سے ہوتے اور سردیوں میں افطار کرتے۔‘‘
3. قَالَ رَبِیْعُ بْنُ
خِرَاشٍ رَحِمَهٗ ﷲ: اَلْجُوْعُ یُصُفِّي الْفُؤَادَ وَیُمِیْتُ الْهَوٰی
وَیُوْرِثُ الْعِلْمَ.
أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری: 67.
’’حضرت
ربیع بن خراش رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بھوک دل کو صاف کرتی ہے، خواہش نفس کو
تباہ کرتی ہے اور علم کا وارث بناتی ہے۔‘‘
4. قَالَ سَهْلٌ بْنُ عَبْدِ
ﷲِ التُّسْتَرِيُّ رحمه ﷲ لِأَصْحَابِهٖ: مَا دَامَتِ النَّفْسُ تَطْلُبُ
مِنْکُمْ الْمَعْصِیَةَ فَأَدِّبُوْهَا بِالْجُوْعِ وَالْعَطَشِ، فَإِذَا لَمْ
تُرِدْ مِنْکُمُ الْمَعْصِیَةَ فَأَطْعِمُوْهَا مَا شَائَ تْ، وَاتْرُکُوْهَا
تَنَامُ مِنَ اللَّیْلِ مَا أَحَبَّتْ.
أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری: 119.
’’حضرت
سہل بن عبد ﷲ تستری رحمۃ اللہ علیہ اپنے خدام سے فرماتے: جب تک تمہارا نفس گناہ
طلب کرتا ہے اسے بھوک اور پیاس کے ذریعے ادب سکھاؤ (یعنی بھوک اور پیاس کے ساتھ اس
کی تہذیب و اصلاح کرو)۔ پھر جب تم سے گناہ کی طلب نہ کرے تو جو چاہے اسے کھلاؤ اور
اسے رات کو جب تک چاہے سویا رہنے دو۔‘‘
5. قَالَ سُفْیَانُ رحمة ﷲ:
إِیَّاکُمْ وَالْبِطْنَةَ، فَإِنَّهَا تُقْسِي الْقَلْبَ، وَاکْظِمُوْا الْعِلْمَ،
وَلَا تُکْثِرُوْا الضَحِکَ فَتَمُجُّهُ الْقُلُوْبُ.
أخرجه ابن المبارک في الزہد: 114، وأبو نعیم في حلیة الأولیاء،
7/36.
’’حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: کثرتِ طعام سے بچو کہ
یہ دل میں سختی پیدا کرتا ہے اور علم سے اپنے آپ کو سیراب کرو، اور کثرت سے نہ
ہنسو کہ دلوں کو ناگزیر لگنے لگے۔‘‘
ConversionConversion EmoticonEmoticon